معزولی کے بعد بشارالاسد نے پہلا بیان جاری کردیا، فرار کی کہانی سنادی

(ماسکو) شام کے معزول صدر بشار الاسد نے گزشتہ ہفتے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں شام سے کسی "منصوبہ بند” روانگی کی تردید کی ہے۔ بشار الاسد نے اپنے بیان میں کہا کہ ماسکو نے ان کی شام سے انخلا کی درخواست کی تھی۔ العربیہ کے مطابق یہ بیان شامی صدارت کے ٹیلیگرام چینل پر پیر کو ماسکو سے جاری ہوا ہے۔  بشار الاسد نے کہا کہ انہیں 8 دسمبر کی شام حمیمیم بیس سے اس وقت روس منتقل کیا گیا جب اس پر ڈرون حملے ہو رہے تھے۔ 

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بشارالاسد نے کہا کہ روس نے ان کے انخلا کی درخواست کی تھی "جب دہشت گردی پورے شام میں پھیل گئی اور بالآخر ہفتہ، 7 دسمبر 2024 کی شام دمشق تک پہنچ گئی، تو صدر کے انجام اور موجودگی کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب جھوٹے بیانیے اور غلط معلومات کا سیلاب آیا ہوا تھا، جن کا مقصد بین الاقوامی دہشت گردی کو شام کی آزادی کی تحریک کے طور پر پیش کرنا تھا۔”

بشارالاسد نے واضح کیا "شام سے میری روانگی نہ تو کسی منصوبہ بندی کے نتیجے میں تھی اور نہ ہی یہ لڑائی کے آخری لمحات میں ہوئی۔ ماسکو نے 8 دسمبر، اتوار کی شام ہنگامی طور پر روس روانگی کی درخواست کی۔ اس روز میں پہلے ہی لاذقیہ منتقل ہوچکا تھا۔”

انہوں نے مزید کہا ” جب ایک ریاست دہشت گردی کا گڑھ بن جائے اور اس کے خلاف کچھ کرسکنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تو اس کے بعد کوئی بھی پوزیشن بے معنی ہوتی ہے۔”

بشار الاسد نے انکشاف کیا کہ وہ 8 دسمبر کو دمشق سے اس وقت روانہ ہو گئے تھے  جب اپوزیشن فورسز نے دارالحکومت میں پیش قدمی کی۔ ان کا روس منتقل ہونا اس وقت ممکن ہوا جب لاذقیہ میں روس کے زیرِ کنٹرول حمیمیم ایئر بیس پر ڈرون حملے ہوئے۔ بشارالاسد نے بتایا کہ انہوں نے دمشق سے فرار کے بعد لاذقیہ سے جنگی کارروائیوں کی نگرانی کی، لیکن تسلیم کیا کہ تمام فوجی پوزیشنز ختم ہو چکی تھیں۔

انہوں نے بیان میں کہا”جب بیس چھوڑنے کا کوئی قابل عمل ذریعہ باقی نہ رہا، تو ماسکو نے بیس کی کمانڈ سے 8 دسمبر، اتوار کی شام فوری انخلا کے انتظامات کرنے کی درخواست کی۔ یہ واقعہ دمشق کے سقوط اور آخری فوجی پوزیشنز کے خاتمے کے ایک دن بعد پیش آیا، جس کے نتیجے میں ریاست کے باقی تمام ادارے مفلوج ہو گئے۔”

بشار الاسد نے مزید کہا "ان واقعات کے دوران میں نے کبھی استعفیٰ دینے یا پناہ لینے کا نہیں سوچا، نہ ہی کسی فرد یا جماعت کی طرف سے ایسا کوئی مشورہ دیا گیا۔ واحد راستہ یہی تھا کہ دہشت گرد حملے کے خلاف لڑائی جاری رکھی جائے۔” اب ماسکو میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بشار الاسد نے کہا کہ ان کا "شام سے گہرا تعلق” بدستور قائم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ بشارالاسد انتہائی خاموشی کے ساتھ دمشق سے فرار ہوئے۔ انہیں روس کی مدد حاصل تھی اور انہوں نے اپنی روانگی سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتے داروں کو بھی اندھیرے میں رکھا۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ روس کے جہاز میں ماسکو کیلئے روانہ ہوئے ۔ ان کی روانگی کو خفیہ رکھنے کیلئے راستے میں طیارے کا ٹرانسپونڈر بھی بند کردیا گیا تھا تاکہ ان کا پتا نہ چلایا جاسکے۔

خیال رہے کہ بشار الاسد اپنے والد کے بعد سنہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد حافظ الاسد نے تقریباً تین دہائیوں تک شام پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کی۔ کبھی ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے بشارالاسد کا اقتدار 8 دسمبر کو اس وقت ختم ہو گیا جب ایک تیز رفتار حملے کی وجہ سے ان کی حکومت کو دھچکا پہنچا۔ یہ حملہ حیات تحریر الشام نامی گروپ اور اس کے اتحادی دھڑوں کی قیادت میں کیا گیا تھا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے